انگریزی روزنامہ ہندوستان ٹائمز کے مطابق فیروز پور ضلع میں بین الاقوامی سرحد پر واقع کثیر آبادی والے تین گاؤں ریوینیو ریکارڈز کے مطابق پاکستان کے قصور ضلع کا حصہ ہیں حالانکہ یہ زمین ہندوستان کی ہے۔
اخبار کے مطابق یہ ’کلیریکل‘ غلطی تقسیم کے وقت ہوئی تھی جس کی کبھی تصیح نہیں کی گئی۔
اگرچہ زمین کے اس ٹکڑے پر دونوں ملکوں کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں ہے لیکن اس غلطی کی مقامی لوگوں نے بھاری قیمت ادا کی ہے کیونکہ شاید ریوینیو ریکارڈز میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے ترقیاتی پروگراموں میں بھی اس علاقے کو نظر انداز کر دیا گیا۔
نہالے والا، کالو والا اور بیار میں گزشتہ برس تک بجلی کی لائن تک نہیں تھی۔ لیکن مقامی لوگ بھی خاموش بیٹھے رہے۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ زیادہ تر لوگ تقسیم کے وقت پاکستان سے آئے تھے اور انہوں نےاس زمین پر کاشت شروع کر دی تھی۔ لیکن ان کے پاس مالکانہ حقوق ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔
اخبار کے مطابق گاؤں والوں نے بھی ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ کسی کی نظر میں نہ آئیں کیونکہ انہیں یہ خوف تھا کہ کہیں انہیں ان زمینوں سے بے دخل نہ کردیا جائے۔ اسی لیے وہ نہ زمین خریدتے ہیں اور نہ بیچتے۔
نہ وہاں سڑکیں ہیں، نہ سکول، نہ ہسپتال لیکن ان لوگوں کو ووٹ کا حق حاصل ہے۔ گاؤں تک صرف کشتی پر سوار ہوکر ہی پہنچا جاسکتا ہے کیونکہ یہ علاقہ دریائے ستلج اور پاکستان کی سرحد کے بیچ واقع ہے۔
ضلع انتظامیہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ہندوستان کے ریکارڈز میں تقریباً سو ایکڑ زمین کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
اخبار کے مطابق یہ ’کلیریکل‘ غلطی تقسیم کے وقت ہوئی تھی جس کی کبھی تصیح نہیں کی گئی۔
اگرچہ زمین کے اس ٹکڑے پر دونوں ملکوں کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں ہے لیکن اس غلطی کی مقامی لوگوں نے بھاری قیمت ادا کی ہے کیونکہ شاید ریوینیو ریکارڈز میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے ترقیاتی پروگراموں میں بھی اس علاقے کو نظر انداز کر دیا گیا۔
نہالے والا، کالو والا اور بیار میں گزشتہ برس تک بجلی کی لائن تک نہیں تھی۔ لیکن مقامی لوگ بھی خاموش بیٹھے رہے۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ زیادہ تر لوگ تقسیم کے وقت پاکستان سے آئے تھے اور انہوں نےاس زمین پر کاشت شروع کر دی تھی۔ لیکن ان کے پاس مالکانہ حقوق ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔
اخبار کے مطابق گاؤں والوں نے بھی ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ کسی کی نظر میں نہ آئیں کیونکہ انہیں یہ خوف تھا کہ کہیں انہیں ان زمینوں سے بے دخل نہ کردیا جائے۔ اسی لیے وہ نہ زمین خریدتے ہیں اور نہ بیچتے۔
نہ وہاں سڑکیں ہیں، نہ سکول، نہ ہسپتال لیکن ان لوگوں کو ووٹ کا حق حاصل ہے۔ گاؤں تک صرف کشتی پر سوار ہوکر ہی پہنچا جاسکتا ہے کیونکہ یہ علاقہ دریائے ستلج اور پاکستان کی سرحد کے بیچ واقع ہے۔
ضلع انتظامیہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ہندوستان کے ریکارڈز میں تقریباً سو ایکڑ زمین کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
i like it ......it so nice work....
ReplyDelete